دوستو، آج ہم ایک ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں جو نہ صرف مالی بلکہ پوری دنیا کے امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ جب ہم مالی اور وہاں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک تشویشناک تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ تنظیمیں اب صرف چھوٹے موٹے حملے نہیں کر رہیں۔ میری ذاتی تحقیق اور حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے اور اب وہ ایک نئے انداز میں سامنے آ رہی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب اتنی تیزی سے کیسے بدل گیا؟ دراصل، القاعدہ اپنی مرکزی ڈھانچے سے نکل کر اب علاقائی شاخوں کو زیادہ خود مختاری دے چکی ہے، جس سے ان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ مالی کے دارالحکومت تک کو اقتصادی طور پر محصور کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ صرف مالی کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پورے ساحلی خطے اور عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ان کی بدلتی ہوئی چالیں اور نئے حملے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ آئیے، ذیل کے مضمون میں ہم اس خطرناک صورتحال کی تمام تفصیلات پر گہری نظر ڈالتے ہیں۔
خطے میں بڑھتی ہوئی شورش کا نیا چہرہ
اندرونی معاملات میں گہری جڑیں
دوستو، اگر آپ نے کبھی غور کیا ہو تو یہ دہشت گرد تنظیمیں صرف بیرونی طاقتوں کی پیداوار نہیں ہوتیں بلکہ اکثر ان کی جڑیں مقامی معاشرت اور اس کے مسائل میں گہری پیوست ہوتی ہیں۔ مالی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب میں نے اس صورتحال پر گہرائی سے نظر ڈالی تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ القاعدہ سے منسلک گروہ اب صرف طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ مقامی آبادی کے اندرونی اختلافات، حکومتی کمزوریوں اور معاشی ناہمواریوں کو اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میرے ایک دوست نے بتایا کہ کس طرح گاؤں کے نوجوان روزگار کی کمی اور مایوسی کی وجہ سے ان گروہوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ گروہ انہیں نہ صرف پیسے کا لالچ دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات “انصاف” کے نام پر مقامی تنازعات کو حل کرنے کا بھی دکھاوا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جب لوگوں کو بنیادی سہولیات نہیں ملتیں اور حکومتی نظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو وہ آسانی سے ایسے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں ایک متبادل راستہ دکھاتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا اعتماد کیسے حاصل کیا جا رہا ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھے ہمیشہ پریشان کرتا ہے کہ آخر یہ شدت پسند گروہ کس طرح مقامی آبادی میں اپنا اعتماد پیدا کر لیتے ہیں؟ میری ذاتی تحقیق اور وہاں سے آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ یہ لوگ صرف بم دھماکوں اور حملوں پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک مختلف حربہ بھی اپناتے ہیں۔ یہ بعض علاقوں میں بنیادی نوعیت کی خدمات جیسے پینے کا پانی، چھوٹے موٹے سکول یا پھر طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب ان کی ایک چال ہوتی ہے، لیکن جو لوگ روزمرہ کی زندگی میں حکومتی امداد سے محروم ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ چھوٹی چھوٹی سہولیات بہت معنی رکھتی ہیں۔ میں نے پڑھا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ لوگ مقامی تنازعات کو اپنی شرعی عدالتوں کے ذریعے حل کرتے ہیں، جس سے مقامی لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ انہیں انصاف مل رہا ہے، خواہ وہ انصاف کتنا ہی ظالمانہ کیوں نہ ہو۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جہاں دہشت گرد اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کی حکمت عملیوں میں حیران کن تبدیلی
براہ راست تصادم سے گوریلا جنگ کی طرف
وہ وقت اب گزر گیا جب القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیمیں بڑے پیمانے پر روایتی جنگیں لڑتی تھیں۔ اب ان کی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی آ چکی ہے جس نے مجھے بھی حیران کر دیا ہے۔ میری معلومات اور تجزیات بتاتے ہیں کہ وہ اب براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہوئے گوریلا جنگ اور چھوٹے پیمانے کے حملوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس سے انہیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک چھپے رہ سکتے ہیں اور جب چاہیں حملہ کر سکتے ہیں۔ وہ سڑکوں کے کنارے بم نصب کرتے ہیں، چھوٹے فوجی قافلوں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر تیزی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ حکمت عملی فوج کے لیے بہت مشکل ثابت ہوتی ہے کیونکہ انہیں ایک ایسے دشمن سے لڑنا پڑتا ہے جو نظر نہیں آتا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس طریقہ کار سے ان کا ہدف زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پھیلانا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ مزید غیر محفوظ محسوس کریں۔ یہ صرف مالی کا مسئلہ نہیں بلکہ ساحلی خطے کے دیگر ممالک میں بھی یہی طرزِ عمل دیکھا جا رہا ہے جہاں یہ گروہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔
ٹیکنالوجی اور پروپیگنڈے کا استعمال
آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، اور بدقسمتی سے دہشت گرد بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ القاعدہ سے منسلک گروہ اب سوشل میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجیز کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی کارروائیوں کی تشہیر کرتے ہیں بلکہ نئے بھرتیوں کو راغب کرنے اور اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے بھی ان پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ یہ گروہ کس طرح نوجوانوں کو آن لائن پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر کرتے ہیں اور انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ ویڈیوز، آڈیوز اور تحریری مواد کا استعمال کرتے ہیں جو بظاہر بہت پرکشش ہوتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ ہم کس طرح اس ڈیجیٹل جنگ کا مقابلہ کریں اور نوجوانوں کو ان کے خطرناک پروپیگنڈے سے بچائیں۔ ان کی یہ حکمت عملی انہیں کم وسائل کے ساتھ بھی ایک بڑی آبادی تک پہنچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
معاشی ناکہ بندی: ایک خاموش مگر تباہ کن ہتھیار
دارالحکومت کا گھیراؤ اور اس کے اثرات
اب ہم ایک ایسے پہلو پر بات کرتے ہیں جو شاید سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ القاعدہ سے منسلک تنظیمیں اب مالی کے دارالحکومت باماكو کو اقتصادی طور پر گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ایک خاموش مگر نہایت تباہ کن حکمت عملی ہے۔ میری معلومات بتاتی ہیں کہ وہ دارالحکومت کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی اہم سڑکوں اور تجارتی راستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جب یہ راستے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں تو خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی رسد متاثر ہوتی ہے جس سے شہر میں قلت پیدا ہو جاتی ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ میں نے ایک تجزیہ میں پڑھا تھا کہ اس طرح کی ناکہ بندی کا مقصد صرف لوگوں کو بھوکا مارنا نہیں ہوتا بلکہ حکومتی رٹ کو کمزور کرنا اور عوام میں بے چینی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی شدید متاثر ہوتی ہے اور وہ مسلسل خوف اور غیر یقینی کی صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے جو نہ صرف مالی بلکہ پورے ساحلی خطے کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے۔
خوراک اور ضروری اشیاء کی قلت
جب تجارتی راستے بند ہو جاتے ہیں تو سب سے زیادہ متاثر عام لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے حالات میں کس طرح خوراک اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ مالیمیں بھی یہی ہو رہا ہے۔ وہاں سے آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ بعض علاقوں میں تو خوراک کی شدید کمی ہے اور لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ تنظیمیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں فصلوں کو تباہ کرتی ہیں اور کسانوں کو کھیتی باڑی سے روکتی ہیں تاکہ غذائی بحران پیدا ہو جائے۔ اس سے ایک طرف تو لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ ان گروہوں کے مطالبات تسلیم کرے۔ میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں کہ ان کی ان ظالمانہ کارروائیوں کا سب سے زیادہ شکار بے گناہ اور غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بین الاقوامی امداد کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، لیکن اس کی رسائی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
مقامی آبادی پر اثرات: روزمرہ کی زندگی کا بدلتا رنگ
تعلیم اور صحت کے شعبے کو پہنچنے والا نقصان
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں تعلیم اور صحت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن جب دہشت گردی اپنا سر اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے یہی شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ مالی میں القاعدہ سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے لاتعداد سکول بند ہو چکے ہیں اور صحت کے مراکز یا تو تباہ ہو گئے ہیں یا پھر غیر فعال ہو چکے ہیں۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوتا ہے جب میں پڑھتا ہوں کہ کس طرح ہزاروں بچے سکول جانے سے محروم ہو گئے ہیں اور انہیں مستقبل میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔ اسی طرح طبی عملے کو بھی کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اپنی جانوں کے خوف سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ میں نے ایک رپورٹ میں دیکھا تھا کہ کس طرح حاملہ خواتین کو طبی امداد نہیں مل پاتی اور بچے علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ یہ سب بہت دل دہلا دینے والا ہے۔ میرے تجربے میں، جب کسی خطے میں تعلیم اور صحت کا نظام تباہ ہو جاتا ہے تو اس کی بحالی میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
بے گھر ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
دہشت گردی کا سب سے براہ راست اور دلخراش نتیجہ لوگوں کی اپنے گھر بار سے بے گھری ہے۔ مالی میں لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے تمام اثاثے پیچھے چھوڑ کر صرف اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دستاویزی فلم میں دیکھا تھا کہ کس طرح ایک بوڑھی عورت اپنا سب کچھ کھو کر کئی میل پیدل چلنے پر مجبور تھی۔ ان بے گھر افراد کو پناہ گاہوں میں رہنا پڑتا ہے جہاں بنیادی سہولیات کی بھی شدید کمی ہوتی ہے۔ ان کے لیے صاف پانی، خوراک اور ادویات کا حصول ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ اس صورتحال کا بچوں اور خواتین پر سب سے زیادہ برا اثر پڑتا ہے۔ یہ ایک انسانی بحران ہے جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ حقیقی زندگیاں ہیں جو اس خوفناک صورتحال کا شکار ہیں۔
دہشت گردی کی بدلتی حکمت عملی اور اثرات کا موازنہ
| پہلے کی حکمت عملی | اب کی حکمت عملی | مقامی آبادی پر اثرات |
|---|---|---|
| بڑے پیمانے پر براہ راست حملے اور فوجی چھاؤنیاں ہدف | گوریلا جنگ، چھاپہ مار کارروائیاں، اہم راستوں کی ناکہ بندی | اقتصادی بحران میں اضافہ، نقل و حرکت محدود، خوف و ہراس |
| محدود علاقوں میں اثر و رسوخ | مقامی مسائل کو استعمال کر کے جڑیں مضبوط کرنا، زیادہ علاقائی پھیلاؤ | حکومتی رٹ کمزور، سماجی نظام درہم برہم، عدم اعتماد |
| کم ٹیکنالوجی کا استعمال، زیادہ روایتی ذرائع ابلاغ | سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال، پروپیگنڈہ | نوجوانوں میں شدت پسندی کی طرف راغب ہونے کا امکان، معلومات کا غلط استعمال |
| فوجی اہداف پر زیادہ توجہ | عام شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا | تعلیم اور صحت کی تباہی، بے گھری، بنیادی ضروریات کی قلت |
عالمی برادری کی ذمہ داری اور چیلنجز
بین الاقوامی امداد کی ناکافی رسائی
جب بھی ایسے بحران آتے ہیں تو عالمی برادری سے امداد کی امید کی جاتی ہے، لیکن مالی جیسے خطے میں یہ امداد پوری طرح سے پہنچ نہیں پاتی۔ مجھے اکثر یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں کوشش تو بہت کرتی ہیں لیکن دہشت گردوں کی موجودگی اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی امداد ضرورت مندوں تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک بار ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ کس طرح امدادی قافلوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے بہت سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات مالی اور دیگر علاقوں میں حکومتی بدانتظامی اور کرپشن بھی اس امداد کی صحیح تقسیم میں رکاوٹ بنتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ کس طرح اس انسانی امداد کو محفوظ طریقے سے اور شفاف طریقے سے ان لوگوں تک پہنچایا جائے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ صرف مالی کا مسئلہ نہیں بلکہ افریقہ کے دیگر حصوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
سیاسی حل کی تلاش میں رکاوٹیں
دہشت گردی کا مقابلہ صرف فوجی کارروائیوں سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی حل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مالی میں سیاسی عدم استحکام اور بار بار ہونے والی فوجی بغاوتوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب کوئی حکومت کمزور ہوتی ہے اور لوگوں کا اس پر اعتماد نہیں ہوتا تو دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے پر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہیں۔ بعض ممالک صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی پائیدار سیاسی حل سامنے نہیں آ پا رہا۔ میرے خیال میں جب تک تمام فریقین ایک میز پر بیٹھ کر سنجیدگی سے بات چیت نہیں کریں گے اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کریں گے، تب تک یہ بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔
میری نظر میں حل کی راہیں اور امید کی کرن
مقامی سطح پر تعاون اور اعتماد سازی
ہم سب کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کسی بھی بحران کا پائیدار حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مقامی آبادی کو اس عمل میں شامل نہ کیا جائے۔ مالی کے تناظر میں، میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم قدم مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرنا اور ان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک افریقی ملک میں، مقامی سرداروں اور مذہبی رہنماؤں نے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک تحریک شروع کی تھی اور اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے۔ وہاں کے لوگوں نے خود اپنے علاقوں میں امن قائم کرنے میں مدد کی۔ میرے خیال میں اگر مالی کی حکومت اور بین الاقوامی ادارے مقامی رہنماؤں، قبائلی بزرگوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو شامل کریں تو ایک بہتر حکمت عملی وضع کی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی انہیں ہی مل کر نکالنا ہے۔ تب ہی حقیقی معنوں میں امن قائم ہو سکے گا۔
تعلیم اور معاشی ترقی پر توجہ
دہشت گردی کی جڑیں اکثر غربت اور جہالت میں پیوست ہوتی ہیں۔ اسی لیے میرا پختہ یقین ہے کہ مالی میں امن قائم کرنے کے لیے تعلیم اور معاشی ترقی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ جب نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہوتا اور وہ مستقبل سے مایوس ہوتے ہیں تو انہیں آسانی سے شدت پسند گروہ بہکا لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے منصوبے شروع کرے جو مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریں اور انہیں بہتر تعلیم فراہم کریں۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ جب کسی علاقے میں سکول کھلتے ہیں اور لوگوں کو کام ملتا ہے تو وہاں امن و امان کی صورتحال خود بخود بہتر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک طویل مدتی حکمت عملی ہے لیکن اس کے نتائج پائیدار ہوتے ہیں۔ یہ صرف سکیورٹی فورسز کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں حکومت، بین الاقوامی اداروں اور سول سوسائٹی سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ مالی کے لوگوں کو ایک روشن مستقبل دیا جا سکے۔
ساحلی خطے کی سلامتی: ایک عالمی مسئلہ
علاقائی تعاون کی اہمیت
مالی کا مسئلہ صرف مالی کا نہیں بلکہ یہ پورے ساحلی خطے اور اس سے آگے عالمی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اس کا مقابلہ صرف علاقائی تعاون سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ مالی کے پڑوسی ممالک جیسے نائجر، برکینا فاسو، اور ماریطانیہ کو مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے اور مشترکہ فوجی آپریشنز کرنے چاہیئں تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔ مجھے ایک بار ایک تجزیہ میں یہ پڑھنے کا موقع ملا تھا کہ کس طرح مشترکہ بارڈر پٹرولنگ سے دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کو کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جب یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے تو دہشت گردوں کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب انہیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔
عالمی امن پر اثرات

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مالی میں ہونے والے واقعات کا عالمی امن پر کیا اثر پڑتا ہے؟ میرا ذاتی تجربہ اور میری تحقیق بتاتی ہے کہ یہ چھوٹی سی چنگاری بڑی آگ میں بدل سکتی ہے۔ القاعدہ سے منسلک گروہ نہ صرف مالی بلکہ مغربی افریقہ اور ساحلی خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہے ہیں۔ اگر انہیں روکا نہ گیا تو یہ مزید ممالک میں عدم استحکام پیدا کریں گے اور ان کا ہدف صرف علاقائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر حملے کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے کئی بار اس بات پر غور کیا ہے کہ کس طرح ایک جگہ کی بدامنی پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ یورپ اور امریکہ کو بھی اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ مالی میں تربیت یافتہ دہشت گرد کسی بھی وقت کہیں بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس خطرے کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ دنیا میں امن اور استحکام قائم رہ سکے۔
بات ختم کرتے ہوئے
دوستو، میں امید کرتا ہوں کہ اس تفصیلی گفتگو سے آپ مالی اور ساحلی خطے میں جاری اس پیچیدہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکے ہوں گے۔ یہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا المیہ ہے جو ہر روز اس آگ میں جل رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت دکھ ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح یہ دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک ہم اس مسئلے کی جڑوں تک نہیں پہنچیں گے اور ایک مشترکہ محاذ قائم نہیں کریں گے، تب تک یہ بحران مزید سنگین ہوتا جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اس انسانی بحران کے حل کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم ایسے حالات پیدا کریں جہاں کوئی بھی بچہ تعلیم اور امن سے محروم نہ ہو۔
جاننے کے لیے کچھ مفید معلومات
1. مقامی سطح پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فوراً متعلقہ حکام کو دیں، یہ آپ کے اپنے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ کبھی بھی کسی اجنبی کو اپنے علاقے میں غیر معمولی حرکتیں کرتے دیکھیں تو اسے نظر انداز نہ کریں۔
2. شدت پسند پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں؛ آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی معلومات پھیلائی جاتی ہیں جو گمراہ کن ہوتی ہیں، ہمیشہ مستند ذرائع سے خبروں کی تصدیق کریں۔ کسی بھی ایسی پوسٹ یا ویڈیو کو شیئر کرنے سے گریز کریں جو نفرت یا تشدد کو ہوا دیتی ہو۔
3. تعلیم اور معاشی مواقع کی اہمیت کو سمجھیں، کیونکہ یہ دونوں چیزیں معاشرے کو دہشت گردی سے بچانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں اور انہیں ایسے ہنر سکھائیں جو انہیں مستقبل میں خود کفیل بنا سکیں۔
4. بین الاقوامی اور مقامی امدادی تنظیموں کی حمایت کریں جو متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کر رہی ہیں؛ ان کی چھوٹی سی کاوش بھی بڑے فرق کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو ان کی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں یا مالی معاونت فراہم کریں۔
5. امن اور مفاہمت کے عمل میں اپنا حصہ ڈالیں، کیونکہ سیاسی حل ہی کسی بھی طویل المدتی مسئلے کا واحد پائیدار حل ہوتا ہے۔ اپنی کمیونٹی میں بھائی چارے کو فروغ دیں اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
اہم نکات کا خلاصہ
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مالی اور ساحلی خطے میں دہشت گردی ایک کثیر جہتی چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف فوجی کارروائیاں کافی نہیں ہیں۔ شدت پسند گروہ اپنی حکمت عملی تبدیل کر چکے ہیں، وہ مقامی آبادی میں جڑیں مضبوط کر رہے ہیں، معاشی ناکہ بندی کر رہے ہیں، اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تعلیم، صحت اور روزمرہ کی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے، اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں، اس بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری، علاقائی ممالک اور مالی کی حکومت کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، جہاں مقامی سطح پر اعتماد سازی، تعلیم اور معاشی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے اور سیاسی حل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ یہ صرف مالی کا نہیں بلکہ عالمی امن کا مسئلہ ہے جس پر فوری اور سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر زندگی قیمتی ہے اور ہر شخص امن سے جینے کا حق رکھتا ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: مالی میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیاں کیسے بدل گئی ہیں؟
ج: دوستو، اگر آپ حالیہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ مالی میں القاعدہ سے منسلک تنظیمیں اب اپنی پرانی حکمت عملیوں پر کاربند نہیں ہیں۔ پہلے یہ تنظیمیں زیادہ تر چھوٹے موٹے حملے کرتی تھیں، لیکن اب میرے تجربے اور رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ القاعدہ نے اپنے مرکزی ڈھانچے سے نکل کر اب اپنی علاقائی شاخوں کو بہت زیادہ خودمختاری دے دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقائی شاخیں اب اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں اور اپنے دائرہ کار میں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس خودمختاری کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے اور وہ اب مالی کے دارالحکومت تک کو اقتصادی طور پر محصور کرنے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک تبدیلی ہے جو صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
س: القاعدہ کی نئی حکمت عملی کیا ہے اور یہ مالی کے لیے کیا خطرہ ہے؟
ج: جب میں اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہوں تو مجھے پتا چلتا ہے کہ القاعدہ کی نئی حکمت عملی صرف فوجی طاقت کا مظاہرہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زیادہ باریک بینی اور تباہ کن منصوبہ ہے۔ انہوں نے اپنی علاقائی شاخوں کو جو خودمختاری دی ہے، اس کی وجہ سے وہ مقامی سطح پر زیادہ مؤثر طریقے سے نیٹ ورک بنا رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں اب مالی کے دارالحکومت باماكو کے گرد اپنا اقتصادی گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ یہ صرف حملے نہیں، بلکہ اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے مالی کی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئیں تو مالی کی حکومت کے لیے بہت بڑے چیلنجز کھڑے ہو جائیں گے، اور اس کے نتیجے میں عام شہریوں کی زندگی بہت مشکل ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو ہمیں بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
س: یہ صورتحال صرف مالی کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ کیوں ہے؟
ج: جی بالکل! یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مالی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف مالی کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے برسوں سے عالمی سلامتی کے معاملات پر نظر رکھی ہے اور میرے تجربے میں یہ صورتحال پورے ساحلی خطے اور اس سے بھی بڑھ کر عالمی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اگر القاعدہ سے منسلک تنظیمیں مالی میں اپنا قدم مضبوط کر لیتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں ایک محفوظ پناہ گاہ مل جائے گی جہاں سے وہ پورے خطے میں عدم استحکام پھیلا سکتی ہیں۔ یہ نہ صرف پڑوسی ممالک جیسے نائیجر، برکینا فاسو اور چاڈ کو متاثر کرے گا بلکہ یورپ اور عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور بدلتی ہوئی چالیں ہمارے لیے ایک الارم ہے کہ ہمیں اس مسئلے کو عالمی سطح پر مل کر حل کرنا ہوگا۔ اس خطرے کو نظر انداز کرنا کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہوگا۔






